Sunday, 11 January 2015

آئے دن مل کے بچھڑتے ہو ادا اچھی ہے

آئے دن مِل کے بچھڑتے ہو، ادا اچھی ہے
چاہنا ہی جو خطا ہے، تو سزا اچھی ہے
صبحِ غم اچھی نہ یہ شامِ بلا اچھی ہے
موت دونوں سے یقیناً، بخدا، آچھی ہے
سب دواؤں سے یہی ایک دوا اچھی ہے
ان کے کوچے میں جو آ جائے قضا، اچھی ہے
تُو نہ ہو پاس تو دل اس سے بہل جائے گا
تُو بھی اچھا، تری تصویر بھی کیا اچھی ہے
جب کہا ہم نے کہ ہم سے یہ تکلّف کیسا
“نیچی نظروں سے کہا اس نے ”حیا اچھی ہے
بعد مدت کے ترے ہاتھ سے پینے کو ملی
“اور، اے ساقئ مئے خانہ پلا! ”اچھی ہے 
ان کے در سے جو ملے بھیک، وہ سب سے بہتر
ان کے در پر جو صدا ہو، وہ صدا اچھی ہے
لے چلو آج مجھے کوچۂ جاناں کی طرف
موسم اچھا ہے ، رُت اچھی ہے، فضا اچھی ہے
میں یہ کہتا ہوں مری آہِ رسا سے ڈریئے
“وہ یہ کہتے ہیں ”کہ یہ تیز ہوا اچھی ہے 
مسکرائے، جو نظر آئی شبیہہِ یوسفؑ
“میں نے پوچھا یہ کیسی ہے، کہا ”اچھی ہے 
اتنی گستاخ کہ رہتی ہے ترے سر پر سوار
زلف کہتے ہیں جسے لوگ، بلا اچھی ہے
اچھے اچھوں کی ادائیں ہیں نگاہوں میں نصیرؔ
ان کا کیا کہنا ادا جن کی سوا اچھی ہے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment