کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہیں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تو دیارِِ ہجر کی تیرگی کو
مِژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِِ جنوں بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مِرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مِرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مِری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے، سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا سِتم سہو
نہ سُنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو، یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سِمٹ سکیں، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment