نور رگوں میں دوڑ جائے، پردۂ دل جلا تو دو
دیکھنا رقص پھر مرا، پہلے نقاب اٹھا تو دو
رنگ ہے زرد کیوں مرا، حال ہے غیر کس لئے
ہو جو بڑے ادا شناس، اس کا سبب بتا تو دو
میرے مکاں میں تم مکیں، میں ہوں مکاں سے بے خبر
ہو، کہ نہ ہو مجھے سکون، یہ تو خدا کو علم ہے
نزع میں آ کے سامنے، ناز سے مسکرا تو دو
لطف نہیں، جفا سہی، زیست نہیں، قضا سہی
غمزۂ ناروا سہی، عشق کا کچھ صلا تو دو
تم کو غرورِ ناز ہے، تم ہو تغافل آشنا
اچھا اگر یہ بات ہے، دل سے مجھے بھلا تو دو
اِس سے تمہیں غرض نہیں، پھلنے لگے، کہ جل اٹھے
نخلِ حیاتِ جوش پر برقِ نظر گرا تو دو
جوش ملیح آبادی
No comments:
Post a Comment