حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں
ادھر سے گزرا تھا سوچا سلام کرتا چلوں
نگاہ و دل کی یہی آخری تمنّا ہے
تمہاری زُلف کے سائے ميں شام کرتا چلوں
انہيں يہ ضِد کہ مجھے ديکھ کر کسی کو نہ ديکھ
يہ ميرے خوابوں کی دُنيا نہيں سہی، ليکن
اب آ گيا ہوں تو دو دن قيام کرتا چلوں
تمہارے حُسن سے جاگے تمام ہنگامے
ميں دو ہی لفظوں ميں قِصّہ تمام کرتا چلوں
ميرے کلام کی شادابؔ سادگی اچھی
عوام سن کے مزے ليں ميں نام کرتا چلوں
شاداب لاہوری
No comments:
Post a Comment