Sunday 11 January 2015

پھرا کے اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں

پھِرا کے اپنے رُخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں
وہ سچ مچ ہم سے ناخوش ہو گئے یا بن کے بیٹھے ہیں
غضب کیا ہے جو اس کوچے میں اُس پُرفن کے بیٹھے ہیں
کسی کو کیا غرض، مالک ہیں اپنے من کے بیٹھے ہیں 
الٰہی! خیر دل کی، جان کی، چشمِ تماشا کی
بلا کی شان سے محفل میں وہ بن ٹھن کے بیٹھے ہیں
بٹھا کر پاس اس نے دور دل سے کر دیا ہم کو
یہ کیا معلوم تھا پہلو میں ہم دشمن کے بیٹھے ہیں
جنہوں نے جیتے جی مجھ سے نہ میرا حال تک پوچھا
وہی اب سر جھکائے سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں
کہاں ایسا مقدر تھا کہ ہوتا یہ شرف حاصل
عنایت ہے کے سائے میں ترے دامن کے بیٹھے ہیں
یہ میری بزم ہے آئینہ بندی عہدِ ماضی کی
یہان مل جل کے کچھ ساتھی مرے بچپن کے بیٹھے ہیں
ستم صیاد کا برحق، زباں اپنی بیان اپنا
قفس میں ہیں، مگر قصے لیے گلشن کے بیٹھے ہیں
حیات و موت ہیں دونوں ترے کوچے سے وابسطہ
جنازہ بن کے اٹھیں گے، تمنا بن کے بیٹھے ہیں
نصیرؔ! ان کو کوئی پہچان لے، یہ غیر ممکن ہے
کچھ ایسا روپ بدلا ہے کچھ ایسے بن کے بیٹھے ہیں

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment