Friday 16 January 2015

دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا

دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا
اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا
حاکم خود اپنے عہدِ حکومت میں مر گیا
زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا
کچھ نفرتوں کی نذر ہوا میرا یہ وجود
باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا
مجھ کو کبھی حصار میں کب لے سکا کوئی
میں اس لیے بس اپنی حراست میں مر گیا
اب تو یہ بات تم کو بہت ناگوار ہے
لیکن اگر کبھی میں حقیقت میں مر گیا
اس کی محبتوں کا رضیؔ ذکر کیا کروں
اتنا سکوں ملا کہ اذیّت میں مر گیا​

رضی الدین رضی

No comments:

Post a Comment