Tuesday 13 January 2015

تم ہی کہو کیا کرنا ہے

تُم ہی کہو کیا کرنا ہے

 جب دُکھ کی ندیا میں ہم نے
 جیون کی ناؤ ڈالی تھی
 تھا کتنا کَس بَل بانہوں میں
لہُو میں کتنی لالی تھی
 یُوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
 اور ناؤ پُورم پار لگی
 ایسا نہ ہُوا، ہر دھارے میں
 کچھ اندیکھی منجدھاریں تھیں
 کچھ مانجھی تھے انجان بہت
 کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں
 اب جو بھی چاہو چھان کرو
 اب جِتنے چاہو دوش دھرو
 ندیا تو وہی ہے، ناؤ وہی
 اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے
 اب کیسے پار اُترنا ہے
 جب اپنی چھاتی میں ہم نے
 اِس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے
 تھا ویدوں پر وشواش بہت
 اور یاد بہت سے نُسخے تھے
 یُوں لگتا تھا بس کچھ دِن میں
 ساری بِپتا کٹ جائے گی
 اور سب گھاؤ بھر جائیں گے
 ایسا نہ ہُوا کہ روگ اپنے
 کچھ اِتنے ڈھیر پُرانے تھے
 وید اُن کی ٹوہ کو پا نہ سکے
 اور ٹوٹکے سب بے کار گئے
 اب جو بھی چاہو چھان کرو
 اب جتنے چاہو دوش دھرو
 چھاتی تو وہی ہے، گھاؤ وہی
 اب تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
 یہ گھاؤ کیسے بھرنا ہے

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment