ابھی سے طاقِ طلب پر نہ تُو سجا مجھ کو
ابھی تو کرنا ہے اس دل سے مشورہ مجھ کو
ابھی شبیہہ مکمل نہیں ہوئی تیری
ابھی تو بھرنا ہے اک رنگ ماورأ مجھ کو
کوئی نہ کوئی تو صورت نکل ہی آئے گی
یہ بات بات پہ تکرار و بحث کیا کرنا
کہ جیتنا ہے تجھے اور ہارنا مجھ کو
میں اُس کی ذات میں شامل تھی اُس کو مل جاتی
دعائے خیر سمجھ کر وہ مانگتا مجھ کو
میں جس میں دیکھ کے خود کو سنوار لوں ناہیدؔ
ابھی ملا ہی کہاں ہے وہ آئینہ مجھ کو
ناہید ورک
No comments:
Post a Comment