Wednesday, 14 January 2015

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو بُرا کہتے ہیں​
آج ہم اپنی پریشانئ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں​
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنہیں کچھ نہ کہو
جو مئے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں​
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں؟
ہے پرے سرحدِ ادراک سے، اپنا مسجود
قبلے کو، اہلِ نظر، قبلہ نُما کہتے ہیں​
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو تِرے ہم مِہرِ گِیا کہتے ہیں​
اِک شرر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہوا کہتے ہیں​
دیکھیے، لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نامِ خُدا کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبِؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں​

مرزا غالب

No comments:

Post a Comment