صبحِ نَو ہم تو تِرے ساتھ نمایاں ہوں گے
اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے
صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ
بخدا یہ نہ تِرے درد کا داماں ہوں گے
میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہو گی
تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے
آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات
ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے
عاشقی اور مراحل سے ابھی گزرے گی
امتحاں اور محبت کے مِری جاں ہوں گے
قلبِ پاکیزہ نہاد و دلِ صافی دے کر
آئینہ ہم کو بنایا ہے تو حیراں ہوں گے
صدقۂ تیرگئ شب سے گِلہ سنج نہ ہو
کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے
اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے
صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ
بخدا یہ نہ تِرے درد کا داماں ہوں گے
میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہو گی
تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے
آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات
ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے
عاشقی اور مراحل سے ابھی گزرے گی
امتحاں اور محبت کے مِری جاں ہوں گے
قلبِ پاکیزہ نہاد و دلِ صافی دے کر
آئینہ ہم کو بنایا ہے تو حیراں ہوں گے
صدقۂ تیرگئ شب سے گِلہ سنج نہ ہو
کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے
رئیس امروہوی
No comments:
Post a Comment