غزل سن کر پریشاں ہو گئے کیا
کسی کے دھیان میں تم کھو گئے کیا
یہ بے گانہ روی پہلے نہیں تھی
کہو تم بھی کسی کے ہو گئے کیا
نہ پُرسش کو، نہ سمجھانے کو آئے
ابھی کچھ دیر پہلے تک یہیں تھے
زمانہ ہو گیا تم کو گئے کیا
کسی تازہ رفاقت کی للک ہے
پرانے زخم اچھے ہو گئے کیا
پلٹ کر چارہ گر کیوں آ گئے ہیں
شبِ فرقت کے مارے سو گئے کیا
فرازؔ اتنا نہ اِترا حوصلے پر
اسے بھولے زمانے ہو گئے کیا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment