Monday, 12 January 2015

غزل سن کر پریشاں ہو گئے کیا

غزل سن کر پریشاں ہو گئے کیا
کسی کے دھیان میں تم کھو گئے کیا
یہ بے گانہ روی پہلے نہیں تھی 
کہو تم بھی کسی کے ہو گئے کیا
نہ پُرسش کو، نہ سمجھانے کو آئے 
ہمارے یار ہم کو رو گئے کیا
ابھی کچھ دیر پہلے تک یہیں تھے 
زمانہ ہو گیا تم کو گئے کیا
کسی تازہ رفاقت کی للک ہے 
پرانے زخم اچھے ہو گئے کیا
پلٹ کر چارہ گر کیوں آ گئے ہیں 
شبِ فرقت کے مارے سو گئے کیا
فرازؔ اتنا نہ اِترا حوصلے پر 
اسے بھولے زمانے ہو گئے کیا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment