کس قدرصاحبِ کردارسمجھتے ہیں مجھے
مجھ کو تھا زعم، مِرے یار سمجھتے ہیں مجھے
اب تو کچھ اور بھی گہری ہیں مِری بنیادیں
اب تو گھر والے بھی دیوارسمجھتے ہیں مجھے
میں تو بازار میں اترا تھا کہ رونق ہے یہاں
اور یہ لوگ خریدار سمجھتے ہیں مجھے
جو بظاہر نظر آتا ہے نہاں سا کچھ ہے
یہ جو ٹہرے ہوئے پانی میں رواں سا کچھ ہے
یہ جو اٹھتا ہے تواتر سے دھواں سا کچھ ہے
آگ پکڑی ہے کہیں ہم نے گماں سا کچھ ہے
مجھ کو یہ عیب محبت نہیں کرنے دیتا
دل میں جو وسوسۂ سود و زیاں سا کچھ ہے
اسی کے نور سے یہ روشنی بچی ہوئی تھی
میرے نصیب میں جو تیرگی بچی ہوئی تھی
ہمارے بیچ میں اک پختگی بچی ہوئی تھی
بچی ہوئی تھی مگر عارضی بچی ہوئی تھی
کمال یہ تھا کہ ہم بحث ہار بیٹھے تھے
ہمارے لہجے کی شائستگی بچی ہوئی تھی
یہ کون ہیں، جن کی دنیا میں دہشت کی حکومت چلتی ہے
اور جن کی قاتل آنکھوں میں بس موت کی وحشت ناچتی ہے
یہ کون ہیں، جن کا دین دھرم
اک جھوٹ پہ قائم جنت کی دوزخ سے گواہی لینا ہے
سورج سے آنکھ چرانا ہے، راتوں سے سیاہی لینا ہے
ہم اپنے قتل ہونے کا تماشا دیکھتے ہیں
تو اپنی تیز ہوتی سانس کے کانوں میں کہتے ہیں
ابھی جو ریت پر لاشہ گرا تھا“
میں نہیں تھا
میں تو زندہ ہوں،،، یہاں
دیکھو
کسی خواب سے فروزاں کسی یاد میں سمٹ کر
کسی حُسن سے درخشاں کسی نام سے لپٹ کر
وہ جو منزلیں وفا کی مِرے راستوں میں آئیں
وہ جو لذتیں طلب کی مِرے شوق نے اٹھائیں
انہیں اب میں جمع کر کے کبھی دھیان میں جو لاؤں
تو ہجومِ رنگ و بو میں کوئی راستہ نہ پاؤں
اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا
جس پر تیرا نام لکھا ہے اُس تارے کو ڈھونڈوں گا
تم بھی ہر شب دیا جلا کر پلکوں کی دہلیز پہ رکھنا
میں بھی روز اک خواب تمہارے شہر کی جانب بھیجوں گا
ہجر کے دریا میں تم پڑھنا لہروں کی تحریریں بھی
پانی کی ہر سطر پہ میں کچھ دل کی باتیں لکھوں گا
دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے
دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے
اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو
اے دشتِ احتیاط! کبھی ناچنے تو دے
سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
اے چشمِ یار! مجھ کو ذرا سوچنے تو دے
بستی بھی، سمندر بھی، بیاباں بھی میرا ہے
آنکھیں بھی میری خوابِ پریشاں بھی میرا ہے
جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری
جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی میرا ہے
جو ہاتھ اٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے
جو چاک ہوا ہے وہ گریباں بھی میرا ہے
فضا میں وحشتِ سنگ و سِناں کے ہوتے ہوئے
قلم ہے رقص میں آشوبِ جاں کے ہوتے ہوئے
ہمیں میں رہتے ہیں وہ لوگ بھی کہ جن کے سبب
زمیں بلند ہوئی آسماں کے ہوتے ہوئے
بضد ہے دل کہ نئے راستے نکالے جائیں
نشانِ رہگزرِ رفتگاں کے ہوتے ہوئے
حجرۂ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا
ہم نے میرؔ سے رُوتابی کی بدعت کا آغاز کیا
خوابوں کی پسپائی کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے
دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی، دنیا کو ناراض کیا
جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد
اس گُل کو شادابی بخشی، ہم کو دست دراز کیا
جنوں کا رنگ بھی ہو شعلہ نمو کا بھی ہو
سکوتِ شب میں اک انداز گفتگو کا بھی ہو
میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو
وہ جس کے چاک گریباں پہ تہمتیں ہیں بہت
اسی کے ہاتھ میں شاید ہنر رفو کا بھی ہو
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
ہم تو دیوانے ہیں، رمزیں نہ کنایہ جانیں
جُز غمِ عشق ہر اک زخم کو مایا جانیں
کجکلاہی پہ نہ جائیں کہ یہ سب آپ کی نذر
شہِ خوباں ہمیں بس اپنی رعایا جانیں
آج کے بعد تو ہم پر بھی یہ لازم ہے کہ ہم
اپنی بوئی ہوئی فصلوں کو پرایا جانیں
سمندر، اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے
کنارے پر بھی ہم کو اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کی جرأتِ پرواز کے چرچے بہت تھے
وہی طائر ہمیں بے بال و پر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کے نام سے روشن تھے مستقبل کے سب خواب
وہی چہرہ، ہمیں نامعتبر کیوں لگ رہا ہے
میرا شرف کہ تُو مجھے جوازِ افتخار دے
فقیرِ شہرِ علم ہوں،۔۔ زکوٰۃِ اعتبار دے
میں جیسے تیسے ٹوٹے پھوٹے لفظ گھڑ کے آ گیا
کہ اب یہ تیرا کام ہے، بگاڑ دے، سنوار دے
مِرے امین آنسوؤں کی نذر ہے، قبول کر
مِرے کریم اور کیا تِرا گناہگار دے
فریب کھا کے بھی اک منزلِ قرار میں ہیں
وہ اہلِ ہجر کے آسیبِ اعتبار میں ہیں
زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج
نہ جانے کون سے موبر پہ کس مدار میں ہیں
پرانے درد، پرانی محبتوں کے گلاب
جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں
میرؔ کے شعر کو سینے سے لگائے ہوئے تم
اچھے لگتے ہو محبت کو سمجھتے ہوئے تم
وہم، ادراک، گماں، شک کی سبھی تاویلیں
میں تمہیں اور مجھے اتنا پرکھتے ہوئے تم
کتنے ہمدرد لگے شام کی وحشت میں مجھے
اپنے دامن میں مرے غم کو سمیٹے ہوئے تم
تِری طرح کوئی بھی غمگسار ہو نہیں سکا
بچھڑ کے تجھ سے پھر کسی سے پیار ہو نہیں سکا
جو خونِ دل کے رنگ میں ٹپک پڑے تھے آنکھ سے
ان آنسوؤں کا مجھ سے کاروبار ہو نہیں سکا
وہی تھا وہ، وہی تھا میں، شکستِ دل کے بعد بھی
وہ مجھ سے اور میں اس سے شرمسار ہو نہیں سکا
کوئی بھیڑ جیسی یہ بھیڑ ہے کسی دوسرے کا پتا نہیں
یہ تو برق و بار کا شہر ہے کوئی رہنے بسنے کی جا نہیں
مِرے شہر میں تو ابھی تلک انہی یکوں تانگوں کا دور ہے
مِرے ذہن میں جو مکان ہیں وہاں اتنی آہ و بکا نہیں
تِرے ہم خیال کدھر گئے، کہیں مر گئے کہ بکھر گئے
میں ضرور اس سے یہ پوچھتا کوئی کوچہ گرد ملا نہیں
کہا اس نے کہ آخر کِس لیے بے کار لکھتے ہیں
یہ شاعر لوگ کیوں اتنے دکھی اشعار لکھتے ہیں
کہا ہم نے کہ ازخود کچھ نہیں لکھتے یہ بیچارے
انہیں مجبور جب کرتا ہے دل، ناچار لکھتے ہیں
یہ سن کر مسکرائی، غور سے دیکھا ہمیں، بولی
تو اچھا آپ بھی اس قسم کے اشعار لکھتے ہیں
چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ
لوگ زندہ ہیں عجب صورتِ حالات کے ساتھ
فیصلہ یہ تو بہرحال "تجھے" کرنا ہے
ذہن کے ساتھ سُلگنا ہے کہ جذبات کے ساتھ
گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ
بھیڑ ہے بر سرِ بازار کہیں اور چلیں
آ مِرے دل مِرے غمخوار کہیں اور چلیں
کوئی کھڑکی نہیں کھلتی کسی باغیچے میں
سانس لینا بھی ہے دشوار کہیں اور چلیں
تُو بھی مغموم ہے میں بھی ہوں بہت افسردہ
دونوں اس دکھ سے ہیں دوچار کہیں اور چلیں
یہ تو ہم کہتے نہیں، سایۂ ظلمت کم ہے
روشنی ہے تو سہی جب ضرورت کم ہے
دل کا سودا ہے یہ مٹی کے کھلونے کا نہیں
اور تخفیف نہ کر، پہلے ہی قیمت کم ہے
اس نے کھڑکی مِرے کمرے کی مقفل کر دی
گویا تنہائی میں جلنے کی اذیت کم ہے
چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہو جائے خطا ترکِ تعلق کی
بناوٹ گفتگو میں، گفتگو بھی اُکھڑی اُکھڑی سی
تعلق رسمی رسمی سا، ادا ترکِ تعلق کی
ہمیں وہ صبر کے اس موڑ تک لانے کا خواہاں ہے
کہ تنگ آ جائیں ہم، مانگیں دعا ترکِ تعلق کی
وہ یکسر مختلف ہے، منفرد پہچان رکھتا ہے
اک آئینے کی صورت شہر کو حیران رکھتا ہے
کوئی اس میں بھی ہوگی اس کی منطق پوچھ لیں گے ہم
بہاروں میں وہ خالی کس لیے گلدان رکھتا ہے
تعلق کس لیے ترک تعلقِ پر بھی قائم ہے
وہ کیوں اپنے سرہانے اب مِرا دیوان رکھتا ہے
مال و زر کے کسی انبار سے کیا لینا ہے
عشق کو گرمئ بازار سے کیا لینا ہے
تیرے کنبے کی وراثت سے ہمیں کیا مطلب
تجھ سے مطلب ہے، پریوار سے کیا لینا ہے
عمر بھر ساتھ نبھانا ہے تو پھر بات کرو
ہم کو "مہمان اداکار" سے کیا لینا ہے
نکل کر قصر سے تیرے ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا
میں کوئی ٹوٹا پھوٹا آشیانہ ڈھونڈ ہی لیتا
خدا کی سرزمیں پر کچھ نہ کچھ تو مل ہی جانا تھا
کوئی بھوکا پرندہ آب و دانہ ڈھونڈ ہی لیتا
اگر تم صاف کہہ دیتے کہ اس گھر سے نکل جاؤ
تو میں اپنے لیے کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا
آخر ہم نے کب دینے والے کا رزق حلال کیا
اک دو غزلیں کہہ ڈالیں تو کون سا ایسا کمال کیا
موتی کا اک ہار لپیٹے اپنے کالے جوڑے میں
خوشبو جیسی اس لڑکی نے ایسا استقبال کیا
صبح ہوئی پلکوں سے چلتے اس کو ہونٹوں کی کلیاں
رات کسی نے روشن دے کر ایسا مالا مال کیا
کسی کا نام سنتے ہی لرز اٹھتے ہیں لب اس کے
کہ اس کے ساتھ بھی شاید نہیں اعصاب اب اس کے
ہمارے ہوش بھی آخر ٹھکانے آ ہی جائیں گے
اسے بھی راس آ جائیں گے شائد روز و شب اس کے
سرِ ساحل وہ اپنی بالکونیوں میں ہی آ جاتا
اور آ کر دیکھتا کس حال میں ہیں تشنہ لب اس کے
ہمارا حال کچھ یوں ہے تِرے دربان کے آگے
کہ یخ بستہ مسافر جیسے آتشدان کے آگے
ہمارے پیر لیکن اس زمیں نے تھام رکھے ہیں
بہت سے شہر ہوں گے اور بھی، ملتان کے آگے
اک آندھی گردش حالات کی حاوی ہوئی مجھ پر
کہاں تک جلتا رہتا وقت کے طوفان کے آگے
مجھے ایسا لطف عطا کیا، جو ہجر تھا نہ وصال تھا
مِرے موسموں کے مزاج داں! تجھے میرا کتنا خیال تھا
کسی اور چہرے کو دیکھ کر، تِری شکل ذہن میں آ گئی
تیرا نام لے کے ملا اسے، میرے حافظے کا یہ حال تھا
کبھی موسموں کے سراب میں، کبھی بام و در کے عذاب میں
وہاں عمر ہم نے گزار دی، جہاں سانس لینا محال تھا
نہ دوائیں پُراثر ہیں نہ دُعائیں، کیا بتائیں
تجھے اپنے دل کی حالت جو بتائیں کیا بتائیں
جو چراغِ آرزو تھا وہ تو بجھ چکا کبھی کا
کسے ڈھونڈتی ہیں اب تک یہ ہوائیں، کیا بتائیں
کبھی دور کے نگر سے، کبھی پاس کی گلی سے
ہمیں کون دے رہا ہے یہ صدائیں، کیا بتائیں
کہیں گھر بار حائل ہے کہیں سنسار حائل ہے
ہمارے اور تمہارے بیچ ہر دیوار حائل ہے
مجھے معلوم ہے وہ رو رہا ہے سامنے میرے
مگر چہرے کے آگے آج کا اخبار حائل ہے
کھلا رکھتا ہے وہ زینے کا دروازہ مِری خاطر
مِرے رستے میں لیکن شب کا چوکیدار حائل ہے
گھر کی دہلیز سے بازار میں مت آ جانا
تم کسی چشمِ خریدار میں مت آ جانا
خاک اڑانا انہی گلیوں میں بھلا لگتا ہے
چلتے پھرتے کسی دربار میں مت آ جانا
یونہی خوشبو کی طرح پھیلتے رہنا ہر سُو
تم کسی دامِ طلب گار میں مت آ جانا
پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خِرد مند بنے پھرتے تھے، ماشاء اللہ
بس تِرے شہر میں اک صاحبِ وحشت ہم تھے
نام بخشا ہے تجھے کس کے وفورِ غم نے
گر کوئی تھا تو تِرے مجرمِ شہرت ہم تھے
یہ نہیں کہ میری محبتوں کو کبھی خراج نہیں ملا
مگر اتفاق کی بات ہے، کوئی ہم مزاج نہیں ملا
مجھے ایسا باغ نہیں ملا، جہاں گل ہوں میری پسند کے
جہاں زندہ رہنے کا شوق ہو مجھے وہ سماج نہیں ملا
کسی داستانِ قدیم میں، مِرے دو چراغ بھی دفن ہیں
میں وہ شاہزادہ بخت ہوں جسے طاق و تاج نہیں ملا
ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں مِلا
ہم کو ثبوتِ تشنہ دہانی نہیں مِلا
اوجھل ہوئے وہ شہر تو پھر مِل نہیں سکے
جیسے ہمارا عہدِ جوانی نہیں مِلا
اتنے بڑے جہاں میں کمی تو نہ تھی کوئی
جاناں تو سینکڑوں تھے وہ جانی نہیں مِلا
ذرا ٹھہرو، دُعا کے ساتھ ہی انعام لے جانا
ادھر تم جا رہے ہو میرا اک پیغام لے جانا
مِرے آنسو ذرا دامن سے اپنے پونچھتے جاؤ
اگر لے جا سکو میری اکیلی شام لے جانا
اسے کہنا ضروری ہو اگر قیمت شبِ غم کی
تو یہ ٹُوٹا ہوا دل چُن کے اپنے دام لے جانا
جانے کس چاہ کے، کس پیار کے گُن گاتے ہو
رات دن کون سے دلدار کے گُن گاتے ہو
یہ تو دیکھو کہ تمہیں لُوٹ لیا ہے اس نے
اک تبسم پہ خریدار کے گُن گاتے ہو
اپنی تنہائی پہ نازاں ہو مِرے سادہ مزاج
اپنے سُونے در و دیوار کے گُن گاتے ہو
تمہیں خیالِ ذات ہے شعورِ ذات ہی نہیں
خطا معاف یہ تمہارے بس کی بات ہی نہیں
غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی
ہمارا "مسئلہ" فقط "قلم دوات" ہی نہیں
ہماری ساعتوں کے حصہ دار اور لوگ ہیں
ہمارے سامنے فقط ہماری ذات ہی نہیں
تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں
مرجھانے لگے پودے کیوں عہدِ جوانی میں
تنکا ہوں کہ بہہ جاؤں برسات کے پانی میں
قائم ہوں چٹانوں سا دریا کی روانی میں
اس پر ہی نجانے کیوں ہم جان لٹا بیٹھے
معلوم نہیں کیا تھا اس دشمنِ جانی میں
سچ کبھی ہو گا تمہارا خواب کیا
مان جائے گا دلِ بے تاب کیا
کیا بتاؤں کر کے میری غیبتیں
نوش فرماتے ہیں کچھ احباب کیا
زہر اس درجہ ہوا میں گھول کر
چاہتے ہو بارشِ تیزاب کیا؟
جدائی کا موسم یہاں سے وہاں تک
برستا ہوا غم یہاں سے وہاں تک
وہاں سے یہاں تک ہے جو بے قراری
وہی کچھ ہے عالم یہاں سے وہاں تک
بجھیں وصل کی شمعِ امید ساری
اندھیرا ہے پیہم یہاں سے وہاں تک
کوئی پَل تُو مجھ سے جدا نہیں مجھے علم ہے
کوئی دل میں تیرے سوا نہیں مجھے علم ہے
یہ دلیلِ ترکِ وفا نہیں مجھے علم ہے
مِرا خط ہی اس کو ملا نہیں مجھے علم ہے
چلے اس کا نام بگاڑنے، چلو چپ رہو
کہ وہ شخص اتنا برا نہیں مجھے علم ہے
تیری خاموش نگاہوں میں گلہ ہے تو سہی
سلسلہ پھر بھی تیرے ساتھ جڑا ہے تو سہی
تجھ سے ہی روٹھنا، اور تجھ کو مناتے رہنا
"ایک الجھا ہوا ہاتھوں میں سِرا ہے تو سہی"
اپنی ہر بات کو منسوب تجھی سے کرنا
دل میںجلتا ہوا چاہت کا دِیا ہے تو سہی
مِری آنکھوں کو آنکھوں کا کنارہ کون دے گا
سمندر کو سمندر میں سہارا کون دے گا
مِرے چہرے کو چہرہ کب عنایت کر رہے ہو
تمہیں میرے سوا چہرہ تمہارا کون دے گا
مِرے دریا نے اپنے ہی کنارے کاٹ ڈالے
بپھرتے پانیوں کا اب سہارا کون دے گا
اپنے خوں کو خرچ کیا ہے اور کمایا شہر
سارے منظر ٹوٹ گئے اور کام نہ آیا شہر
بے گھر ہونا، بے گھر رہنا سب اچھا ٹھہرا
گھر کے اندر گھر نہیں پایا، شہر میں پایا شہر
سات سمندر پار بھی آنکھیں میرے ساتھ نہ آئیں
چاروں جانب خواب ہیں میرے اور پرایا شہر
ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے
جس طرح شہری پرندوں سے شجر چھینے گئے
تتلیوں نے کاغذی پھولوں پہ ڈیرا کر لیا
راستے میں جگنوؤں کے بال و پر چھینے گئے
اس قدر بڑھنے لگے ہیں گھر سے گھر کے فاصلے
دوستوں سے شام کے پیدل سفر چھینے گئے
مجھ کو ایسے نہ خداؤں سے ڈرایا جائے
میرا کیا جرم ہے، اتنا تو بتایا جائے
میری پہچان کی گٹھڑی مجھے واپس کر دو
میرے چہرے پہ مِرا چہرہ سجایا جائے
میری آنکھوں پہ مِری آنکھیں لگائی جائیں
اب کوئی قیمتی پتھر نہ لگایا جائے
عالم ہے سرِ آئینہ ہُو کا مِرے آگے
بے چہرہ ہوا جاتا ہے چہرہ مِرے آگے
موہوم ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے شرارے
ہر رنگ پڑا جاتا ہے کالا مِرے آگے
دیکھا نہیں جاتا میں دکھاتا وہ تماشا
ہوتا جو کوئی دیکھنے والا مِرے آگے
مجھ سے بنتا ہوا تُو تجھ کو بناتا ہوا میں
گیت ہوتا ہوا تُو، گیت سناتا ہوا میں
ایک کُوزے کے تصور سے جڑے ہم دونوں
نقش دیتا ہوا تُو، چاک گھماتا ہوا میں
تم بناؤ کسی تصویر میں کوئی رستہ
میں بناتا ہوں کہیں دُور سے آتا ہوا میں
جو مِری ذات کے منافی ہیں
میری تصدیق کو وہ کافی ہیں
کام شاید تمہارے آ جائیں
ہم جو اپنے لیے اضافی ہیں
بس وہ آنکھیں جو پھیر لیں تُو نے
تیرے ہر جرم کی تلافی ہیں