Thursday 12 March 2015

مجاز ہی کو حقیقت بنائے جاتے ہیں

مجاز ہی کو حقیقت بنائے جاتے ہیں
وہ ہیں کہ سارے زمانے پہ چھائے جاتے ہیں
عجیب شان سے جلوے دکھائے جاتے ہیں
مجھی سے چھپ کے، مجھی میں سمائے جاتے ہیں
مشاہدات کی دنیا بسائے جاتے ہیں
تحیرات کے سکے بٹھائے جاتے ہیں
تجلیوں کے فسانے سنائے جاتے ہیں
خموش ہیں وہ، مگر مسکرائے جاتے ہیں
وہ دور رہ کے مرے پاس آئے جاتے ہیں
نہ جانے کون سا عالم دکھائے جاتے ہیں
طرح طرح سے مجھے آزمائے جاتے ہیں
وہ روز ایک نیا گل کھلائے جاتے ہیں
نہیں ہیں دامنِ گل پر یہ اوس کے قطرے
سحر کا وقت ہے موتی لٹائے جاتے ہیں
رکھا گیا ہے انہی کا لقب مہ و خورشید
تری نگاہ کے کچھ نقش پائے جاتے ہیں
خدا کرے کہ نہ کم ہو بہارِ مے خانہ
یہ بزم وہ ہے جہاں بِن بلائے جاتے ہیں
فسانہ ان کی نگاہوں کا کیا کہوں ماہرؔ
ابھی وہ تیر کلیجے میں پائے جاتے ہیں​

ماہر القادری

No comments:

Post a Comment