Friday 20 March 2015

اس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا

اس کو منزل ملی نہ گھر ہی رہا
تم سے بچھڑا تو دربدر ہی رہا
آنکھ کچھ منظروں پہ رکتی رہی
دل تو آمادۂ سفر ہی رہا
ایک عالم کی فکر تھی جس کو
میری حالت سے بے خبر ہی رہا
خوف سے کانپ کانپ جاتا تھا
زرد پتہ جو شاخ پر ہی رہا
دوسروں کے جو عیب گنتا تھا
حیف, تاعمر بے ہنر ہی رہا
زیست صد جشنِ آرزو ٹھہری
یہ فسانہ بھی مختصر ہی رہا
وسعتِ کائنات میں اخترؔ
جلتا بجھتا سا اک شرر ہی رہا​

اختر ضیائی

No comments:

Post a Comment