تیغ پھر بے نیام ہو جائے
ہاں ذرا قتلِ عام ہو جائے
دل کو کوہِ الم سے ٹکرا دوں
آج قصہ تمام ہو جائے
تجھ پہ زاہد، خدا کرے کہ شراب
تم کسی دن جھلک دکھا جاؤ
دور ہی سے سلام ہو جائے
ٹوٹ جائے حدِ خصوصیت
کاش دیدار، عام ہو جائے
مجھ پر اس طرح میکشی ہو فرض
یعنی توبہ حرام ہو جائے
بعد مدت کے آج تو ماہرؔ
شغلِ شراب مدام ہو جائے
ماہر القادری
No comments:
Post a Comment