کہا اس نے کہ آخر کِس لیے بے کار لکھتے ہیں
یہ شاعر لوگ کیوں اتنے دکھی اشعار لکھتے ہیں
کہا ہم نے کہ ازخود کچھ نہیں لکھتے یہ بیچارے
انہیں مجبور جب کرتا ہے دل، ناچار لکھتے ہیں
یہ سن کر مسکرائی، غور سے دیکھا ہمیں، بولی
تو اچھا آپ بھی اس قسم کے اشعار لکھتے ہیں
وہ کیا غم ہے جسے دہرا رہے ہیں آپ برسوں سے
وہ کیا دکھ ہے، مناتے ہیں جسے ہر بار لکھتے ہیں
مگر افسوس ہم سمجھا نہیں پائے اسے کچھ بھی
کہ کیوں ہم بھی اسی انداز کے اشعار لکھتے ہیں
وہ کیسی آگ ہے لفظوں میں، جس کو ڈھالتے ہیں ہم
وہ کیا غم ہے جو راتوں کو پسِ دیوار لکھتے ہیں
ہے ایسا کون جو سارے جہاں سے ہے ہمیں پیارا
وہ کیسا دشمنِ جاں ہے، جسے غمخوار لکھتے ہیں
یہ شاعر لوگ کیوں اتنے دکھی اشعار لکھتے ہیں
کہا ہم نے کہ ازخود کچھ نہیں لکھتے یہ بیچارے
انہیں مجبور جب کرتا ہے دل، ناچار لکھتے ہیں
یہ سن کر مسکرائی، غور سے دیکھا ہمیں، بولی
تو اچھا آپ بھی اس قسم کے اشعار لکھتے ہیں
وہ کیا غم ہے جسے دہرا رہے ہیں آپ برسوں سے
وہ کیا دکھ ہے، مناتے ہیں جسے ہر بار لکھتے ہیں
مگر افسوس ہم سمجھا نہیں پائے اسے کچھ بھی
کہ کیوں ہم بھی اسی انداز کے اشعار لکھتے ہیں
وہ کیسی آگ ہے لفظوں میں، جس کو ڈھالتے ہیں ہم
وہ کیا غم ہے جو راتوں کو پسِ دیوار لکھتے ہیں
ہے ایسا کون جو سارے جہاں سے ہے ہمیں پیارا
وہ کیسا دشمنِ جاں ہے، جسے غمخوار لکھتے ہیں
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment