عالم ہے سرِ آئینہ ہُو کا مِرے آگے
بے چہرہ ہوا جاتا ہے چہرہ مِرے آگے
موہوم ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے شرارے
ہر رنگ پڑا جاتا ہے کالا مِرے آگے
دیکھا نہیں جاتا میں دکھاتا وہ تماشا
ہوتا جو کوئی دیکھنے والا مِرے آگے
پہنائی بہت چاؤ سے پہلے وہاں زنجیر
پھر اس نے مِرے پاؤں کو چُوما مِرے آگے
حیرت مِری کرتی ہے جو توصیف تمہاری
مِٹ جاتی ہے لکھتے ہی فقط "لا" مِرے آگے
دیتا ہے کوئی میرا ہی پُرسہ مِرے پیچھے
پڑھتا ہے کوئی میرا ہی نوحہ مِرے آگے
پھر ایک رمق آئی مِرے دستِ ہُنر میں
پھر چاک ذرا دیر کو گھُوما مِرے آگے
سائے پہ مِرے وجد سا طاری ہوا کل رات
ناچا مِرے آگے، کبھی جھُوما مِرے آگے
وہ دھوپ سے لڑتی ہے وہ کہتی ہے ہوا سے
پرچھائیں کو بھی اس کی نہ چھُونا مِرے آگے
دائیں ہے کوئی میرؔ تو بائیں کوئی مومنؔ
غالبؔ کوئی پیچھے، کوئی سوداؔ مِرے آگے
بے چہرہ ہوا جاتا ہے چہرہ مِرے آگے
موہوم ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے شرارے
ہر رنگ پڑا جاتا ہے کالا مِرے آگے
دیکھا نہیں جاتا میں دکھاتا وہ تماشا
ہوتا جو کوئی دیکھنے والا مِرے آگے
پہنائی بہت چاؤ سے پہلے وہاں زنجیر
پھر اس نے مِرے پاؤں کو چُوما مِرے آگے
حیرت مِری کرتی ہے جو توصیف تمہاری
مِٹ جاتی ہے لکھتے ہی فقط "لا" مِرے آگے
دیتا ہے کوئی میرا ہی پُرسہ مِرے پیچھے
پڑھتا ہے کوئی میرا ہی نوحہ مِرے آگے
پھر ایک رمق آئی مِرے دستِ ہُنر میں
پھر چاک ذرا دیر کو گھُوما مِرے آگے
سائے پہ مِرے وجد سا طاری ہوا کل رات
ناچا مِرے آگے، کبھی جھُوما مِرے آگے
وہ دھوپ سے لڑتی ہے وہ کہتی ہے ہوا سے
پرچھائیں کو بھی اس کی نہ چھُونا مِرے آگے
دائیں ہے کوئی میرؔ تو بائیں کوئی مومنؔ
غالبؔ کوئی پیچھے، کوئی سوداؔ مِرے آگے
عمار اقبال
No comments:
Post a Comment