Wednesday 25 March 2015

کل شب ہوئی کسی سے ملاقات رقص میں

کل شب ہوئی کسی سے ملاقات رقص میں
وہ کب تھی، زندگی تھی مِرے ساتھ رقص میں
اک دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے
محسوس کی ہے گردشِ حالات رقص میں
اس کے بدن کی آنچ مِرے دل تک آ گئی
آوارہ ہو رہے تھے مِرے ہاتھ رقص میں
وہ ایڑیوں پہ مثلِ زمیں گھومتی رہی
سات آسماں تھے رقص کناں ساتھ رقص میں
کوئی نہیں تھا گوش بر آواز، پھر بھی وہ
سرگوشیوں میں کرتی رہی بات رقص میں
یہ دل کہ اپنا سُود و زیاں جانتا نہیں
آئے طرح طرح کے خیالات رقص میں
لمحوں کا التفات کہیں عارضی نہ ہو
میں کر رہا تھا خود سے سوالات رقص میں
موسیقیوں کی لَے سے لہو موج موج تھا
وہ اس کے باوجود تھی محتاط رقص میں
پھر آ گئے کچھ اہلِ عبا بھی سبُو بہ دست
کیا کیا دکھا رہے تھے کرامات رقص میں
کچھ دیر بعد جیسے بہم ہو گئے تھے سب
اہلِ قبا، و اہلِ خرابات رقص میں
آخر کو رقص گاہ میں ایسی پڑی دھمال
اک دوسرے سے چھُوٹ گئے ہاتھ رقص میں
وہ کون تھی، کہاں سے تھی آئی، کدھر گئی
اتنا ہے یاد، بِیت گئی رات رقص میں

احمد فراز

No comments:

Post a Comment