Friday 13 March 2015

سچ کبھی ہو گا تمہارا خواب کیا

سچ کبھی ہو گا تمہارا خواب کیا
مان جائے گا دلِ بے تاب کیا
کیا بتاؤں کر کے میری غیبتیں
نوش فرماتے ہیں کچھ احباب کیا
زہر اس درجہ ہوا میں گھول کر
چاہتے ہو بارشِ تیزاب کیا؟

آپ بھی بے چین رہتے ہیں بہت
چبھ گیا آنکھوں میں کوئی خواب کیا
پانی اترے تب نہ یہ دیکھے کوئی
ساتھ اپنے لے گیا سیلاب کیا
لے گئے شاخیں بھی پھل کے ساتھ لوگ
پھر سے ہو گا یہ شجر شاداب کیا
پیش آتے ہیں ادب سے آپ کب
آپ سے سیکھے کوئی آداب کیا
کوئی آ کر ایک کنکر پھینک دے
چاہتا ہے اور یہ تالاب کیا
پوچھیے جوہر شناسوں سے کبھی
در حقیقت چیز ہے یہ آب کیا
لغزشوں پر ٹوک بیٹھا تھا انہیں
اور ناراضی کے ہیں اسباب کیا
کہہ دیا کہنا تھا جو راغبؔ مجھے
دیکھ فرماتے ہیں اب احباب کیا

افتخار راغب

No comments:

Post a Comment