Wednesday 18 March 2015

نکل کر قصر سے تیرے ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا

نکل کر قصر سے تیرے ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا
میں کوئی ٹوٹا پھوٹا آشیانہ ڈھونڈ ہی لیتا
خدا کی سرزمیں پر کچھ نہ کچھ تو مل ہی جانا تھا
کوئی بھوکا پرندہ آب و دانہ ڈھونڈ ہی لیتا
اگر تم صاف کہہ دیتے کہ اس گھر سے نکل جاؤ
تو میں اپنے لیے کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا
بھرم رہتا تمہاری اور میری نیک نامی کا
جس کے لیے میں کوئی شانہ ڈھونڈ ہی لیتا
سفر تو کاٹنا ہی تھا کسی صورت مجھے آخر
کوئی چہرہ، کوئی منظر سہانہ ڈھونڈ ہی لیتا
بھرے بازار میں تحلیل جیسے ہو گیا کوئی
وگرنہ، آج اک رشتہ پرانہ ڈھونڈ ہی لیتا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment