Tuesday 10 March 2015

طوفاں کوئی اٹھے نہ میرے احتجاج سے

طوفاں کوئی اُٹھے نہ میرے احتجاج سے
ڈرتا ہوں تیرے شہر کے رسم و رواج سے
کہتے ہیں ایک شخص نے کر لی ہے خودکشی
وہ انتقام لینے چلا تھا سماج سے
تَن کر کھڑا رہا تو جڑوں سے اُکھڑ گیا
واقف نہ تھا جو پیڑ ہوا کے مزاج سے
لینا پڑے گا عشق میں ترکِ وفا سے کام
پرہیز اس مرض میں ہے بہتر علاج سے
جی چاہے اس کی راہگزر میں کھڑے رہیں
اس عاشقی میں ہم تو گئے کام کاج سے
کوئی نشے میں سچ کو چھُپاتا نہیں قتیلؔ
شامل ہوں میں بھی حلقۂ رِنداں میں آج سے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment