Wednesday 25 March 2015

دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے

دستک کسی کی ہے کہ گماں دیکھنے تو دے
دروازہ ہم کو تیز ہوا کھولنے تو دے
اپنے لہو کی تال پہ خواہش کے مور کو
اے دشتِ احتیاط! کبھی ناچنے تو دے
سودا ہے عمر بھر کا کوئی کھیل تو نہیں
اے چشمِ یار! مجھ کو ذرا سوچنے تو دے
اس حرفِ کُن کی ایک امانت ہے میرے پاس
لیکن یہ کائنات مجھے بولنے تو دے
 شاید کسی لکیر میں لکھا ہو میرا نام
اے دوست! اپنا ہاتھ مجھے دیکھنے تو دے
یہ سات آسمان کبھی مختصر تو ہوں
یہ گھومتی زمین کہیں ٹھیرنے تو دے
کیسے کسی کی یاد کا چہرہ بناؤں میں
امجدؔ وہ کوئی نقش کبھی بھولنے تو دے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment