احساں کئے تھے اس نے جور عتاب کر کے
ہم کس قدر ہیں نادم اس سے حساب کر کے
اس سے کِیا تقاضا ہم عبث وفا کا
اچھی بھلی محبت رکھ دی عذاب کر کے
کس درجہ بدمزہ تھا واعظ کا وعظ یوں تو
رِندوں نے صدقِ دل سے زاہد کو بھی پِلا دی
اب سخت ہیں پشیماں، کارِ ثواب کر کے
یوں دلکش و مرصع، جیسے کوئی صحیفہ
ہم کو تو اس کا چہرہ پڑھنا کتاب کر کے
احوال اہلِ غم کا سننا نہ تھا کہ تُو نے
ہم کو ڈبو دیا ہے آنکھیں پُرآب کر کے
غالبؔ کی پیروی میں یہ دن تو دیکھنے تھے
ہم بھی ہوئے ہیں رُسوا شعر انتخاب کر کے
احمد فرازؔ ہو یا، وہ میرؔ و میرزاؔ ہوں
اے عشق تُو نے چھوڑا سب کو خراب کر کے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment