Wednesday 25 March 2015

احساں کئے تھے اس نے جور عتاب کر کے

احساں کئے تھے اس نے جور عتاب کر کے
ہم کس قدر ہیں نادم اس سے حساب کر کے
اس سے کِیا تقاضا ہم عبث وفا کا
اچھی بھلی محبت رکھ دی عذاب کر کے
کس درجہ بدمزہ تھا واعظ کا وعظ یوں تو
کچھ چاشنی سی آئی ذکرِ شراب کر کے
رِندوں نے صدقِ دل سے زاہد کو بھی پِلا دی
اب سخت ہیں پشیماں، کارِ ثواب کر کے
یوں دلکش و مرصع، جیسے کوئی صحیفہ
ہم کو تو اس کا چہرہ پڑھنا کتاب کر کے
احوال اہلِ غم کا سننا نہ تھا کہ تُو نے
ہم کو ڈبو دیا ہے آنکھیں پُرآب کر کے
غالبؔ کی پیروی میں یہ دن تو دیکھنے تھے
ہم بھی ہوئے ہیں رُسوا شعر انتخاب کر کے
احمد فرازؔ ہو یا، وہ میرؔ و میرزاؔ ہوں
اے عشق تُو نے چھوڑا سب کو خراب کر کے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment