Friday, 27 March 2015

اسی کے نور سے یہ روشنی بچی ہوئی تھی

اسی کے نور سے یہ روشنی بچی ہوئی تھی
میرے نصیب میں جو تیرگی بچی ہوئی تھی
ہمارے بیچ میں اک پختگی بچی ہوئی تھی
بچی ہوئی تھی مگر عارضی بچی ہوئی تھی
کمال یہ تھا کہ ہم بحث ہار بیٹھے تھے
ہمارے لہجے کی شائستگی بچی ہوئی تھی
اسی نے جوڑ کے رکھا ہوا تھا رشتے کو
ہمارے بیچ میں جو برہمی بچی ہوئی تھی
عبور کر لیا صحرا تو پھر سے لوٹ آئے
جنون باقی تھا، آشفتگی بچی ہوئی تھی
ہم اپنے حصے کا پانی کسی کو موڑ آئے
کہ فصلِ جاں میں ابھی تازگی بچی ہوئی تھی
اگرچہ ختم تھا رشتہ پڑوسیوں والا
ہمارے بیچ میں ہمسائیگی بچی ہوئی تھی
اسی کے دم پہ منایا تھا اس نے جشن میرا
کہ دشمنی میں بھی جو دوستی بچی ہوئی تھی
اس ایک بات کی شرمندگی نے مار دیا
میرے وجود، تیری تشنگی بچی ہوئی تھی
میں گاہے گاہے اسے یاد کر ہی لیتا تھا
اسی بہانے میری زندگی بچی ہوئی تھی
بدل چکا تھا وہ اپنا مزاج میرے لئے
مگر دکھاوے کو اک بے رخی بچی ہوئی تھی
اسی کے نور سے پرنور تھا یہ سارا جہان
ہماری آنکھ میں جو روشنی بچی ہوئی تھی
اب اس مقام پہ پہونچا دیا تھا ہم نےعشق
جنون ختم تھا، دیوانگی بچی ہوئی تھی
گرے پڑے تھے بدن اپنے خون میں لت پت
کٹے پھٹے تھے مگر ہمسری بچی ہوئی تھی
اسی نے مجھ کو منظم بنا کے رکھا تھا
میرے سلیقے میں جو ابتری بچی ہوئی تھی
اسی کے دم پہ پڑھے بھی گئے سنے بھی گئے
ہمارے لہجے میں جو چاشنی بچی ہوئی تھی
زمانے!تیری ہنر کوش رزم کے ہاتھوں
میں لٹ چکا تھا مگر شاعری بچی ہوئی تھی
وہ کون راز تھا جس کو بیان کر نہ سکے
وہ کون بات تھی جو جعفری بچی ہوئی تھی 

لیاقت جعفری 

No comments:

Post a Comment