اسی کے نور سے یہ روشنی بچی ہوئی تھی
میرے نصیب میں جو تیرگی بچی ہوئی تھی
ہمارے بیچ میں اک پختگی بچی ہوئی تھی
بچی ہوئی تھی مگر عارضی بچی ہوئی تھی
کمال یہ تھا کہ ہم بحث ہار بیٹھے تھے
ہمارے لہجے کی شائستگی بچی ہوئی تھی
اسی نے جوڑ کے رکھا ہوا تھا رشتے کو
ہمارے بیچ میں جو برہمی بچی ہوئی تھی
عبور کر لیا صحرا تو پھر سے لوٹ آئے
جنون باقی تھا، آشفتگی بچی ہوئی تھی
ہم اپنے حصے کا پانی کسی کو موڑ آئے
کہ فصلِ جاں میں ابھی تازگی بچی ہوئی تھی
اگرچہ ختم تھا رشتہ پڑوسیوں والا
ہمارے بیچ میں ہمسائیگی بچی ہوئی تھی
اسی کے دم پہ منایا تھا اس نے جشن میرا
کہ دشمنی میں بھی جو دوستی بچی ہوئی تھی
اس ایک بات کی شرمندگی نے مار دیا
میرے وجود، تیری تشنگی بچی ہوئی تھی
میں گاہے گاہے اسے یاد کر ہی لیتا تھا
اسی بہانے میری زندگی بچی ہوئی تھی
بدل چکا تھا وہ اپنا مزاج میرے لئے
مگر دکھاوے کو اک بے رخی بچی ہوئی تھی
اسی کے نور سے پرنور تھا یہ سارا جہان
ہماری آنکھ میں جو روشنی بچی ہوئی تھی
اب اس مقام پہ پہونچا دیا تھا ہم نےعشق
جنون ختم تھا، دیوانگی بچی ہوئی تھی
گرے پڑے تھے بدن اپنے خون میں لت پت
کٹے پھٹے تھے مگر ہمسری بچی ہوئی تھی
اسی نے مجھ کو منظم بنا کے رکھا تھا
میرے سلیقے میں جو ابتری بچی ہوئی تھی
اسی کے دم پہ پڑھے بھی گئے سنے بھی گئے
ہمارے لہجے میں جو چاشنی بچی ہوئی تھی
زمانے!تیری ہنر کوش رزم کے ہاتھوں
میں لٹ چکا تھا مگر شاعری بچی ہوئی تھی
وہ کون راز تھا جس کو بیان کر نہ سکے
وہ کون بات تھی جو جعفری بچی ہوئی تھی
میرے نصیب میں جو تیرگی بچی ہوئی تھی
ہمارے بیچ میں اک پختگی بچی ہوئی تھی
بچی ہوئی تھی مگر عارضی بچی ہوئی تھی
کمال یہ تھا کہ ہم بحث ہار بیٹھے تھے
ہمارے لہجے کی شائستگی بچی ہوئی تھی
اسی نے جوڑ کے رکھا ہوا تھا رشتے کو
ہمارے بیچ میں جو برہمی بچی ہوئی تھی
عبور کر لیا صحرا تو پھر سے لوٹ آئے
جنون باقی تھا، آشفتگی بچی ہوئی تھی
ہم اپنے حصے کا پانی کسی کو موڑ آئے
کہ فصلِ جاں میں ابھی تازگی بچی ہوئی تھی
اگرچہ ختم تھا رشتہ پڑوسیوں والا
ہمارے بیچ میں ہمسائیگی بچی ہوئی تھی
اسی کے دم پہ منایا تھا اس نے جشن میرا
کہ دشمنی میں بھی جو دوستی بچی ہوئی تھی
اس ایک بات کی شرمندگی نے مار دیا
میرے وجود، تیری تشنگی بچی ہوئی تھی
میں گاہے گاہے اسے یاد کر ہی لیتا تھا
اسی بہانے میری زندگی بچی ہوئی تھی
بدل چکا تھا وہ اپنا مزاج میرے لئے
مگر دکھاوے کو اک بے رخی بچی ہوئی تھی
اسی کے نور سے پرنور تھا یہ سارا جہان
ہماری آنکھ میں جو روشنی بچی ہوئی تھی
اب اس مقام پہ پہونچا دیا تھا ہم نےعشق
جنون ختم تھا، دیوانگی بچی ہوئی تھی
گرے پڑے تھے بدن اپنے خون میں لت پت
کٹے پھٹے تھے مگر ہمسری بچی ہوئی تھی
اسی نے مجھ کو منظم بنا کے رکھا تھا
میرے سلیقے میں جو ابتری بچی ہوئی تھی
اسی کے دم پہ پڑھے بھی گئے سنے بھی گئے
ہمارے لہجے میں جو چاشنی بچی ہوئی تھی
زمانے!تیری ہنر کوش رزم کے ہاتھوں
میں لٹ چکا تھا مگر شاعری بچی ہوئی تھی
وہ کون راز تھا جس کو بیان کر نہ سکے
وہ کون بات تھی جو جعفری بچی ہوئی تھی
لیاقت جعفری
No comments:
Post a Comment