Saturday 21 March 2015

میر کے شعر کو سینے سے لگائے ہوئے تم

میرؔ کے شعر کو سینے سے لگائے ہوئے تم
اچھے لگتے ہو محبت کو سمجھتے ہوئے تم
وہم، ادراک، گماں، شک کی سبھی تاویلیں
میں تمہیں اور مجھے اتنا پرکھتے ہوئے تم
کتنے ہمدرد لگے شام کی وحشت میں مجھے
اپنے دامن میں مرے غم کو سمیٹے ہوئے تم
جیسے خوشرنگ لبادوں میں رواں موسمِ گل
کسی تتلی پہ سرِ شاخ لپکتے ہوئے تم
خوش گمانوں کی مثلث پہ ہنسی آتی ہے
میرا ساغر، مِری تنہائی، سنبھلتے ہوئے تم
خود لکھو خود ہی پڑھو خود ہی جلاؤ بھی انہیں
اپنے لکھے ہوئے اشعار سے سہمے ہوئے تم
میرے اطراف بکھرتا ہوا یہ گنجِ سخن
اور بے ساختہ اس بھیڑ میں الجھے ہوئے تم
دھیرے دھیرے مِری سانسوں کا جدا ہو جانا
دھیرے دھیرے مِرے ہاتھوں سے سرکتے ہوئے تم
ہم کو تو راس ہے سناٹوں میں رہنا ثاقبؔ
اچھے لگتے نہیں تنہائی میں ڈوبے ہوئے تم

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment