کہیں گھر بار حائل ہے کہیں سنسار حائل ہے
ہمارے اور تمہارے بیچ ہر دیوار حائل ہے
مجھے معلوم ہے وہ رو رہا ہے سامنے میرے
مگر چہرے کے آگے آج کا اخبار حائل ہے
کھلا رکھتا ہے وہ زینے کا دروازہ مِری خاطر
مِرے رستے میں لیکن شب کا چوکیدار حائل ہے
میں اتنی بھیڑ میں تجھ سے کروں کیا گفتگو دل کی
کہیں مخلوق حائل ہے، کہیں بازار حائل ہے
کدھر سے راستہ ڈھونڈیں کدھر جائیں کہاں نکلیں
گلی کوچوں میں ہر جانب صفِ اغیار حائل ہے
میں اک ہی شب میں اپنا قصۂ جاں ختم تو کر لوں
مگر بس کیا کروں، رستے میں تیرا پیار حائل ہے
ہمارے اور تمہارے بیچ ہر دیوار حائل ہے
مجھے معلوم ہے وہ رو رہا ہے سامنے میرے
مگر چہرے کے آگے آج کا اخبار حائل ہے
کھلا رکھتا ہے وہ زینے کا دروازہ مِری خاطر
مِرے رستے میں لیکن شب کا چوکیدار حائل ہے
میں اتنی بھیڑ میں تجھ سے کروں کیا گفتگو دل کی
کہیں مخلوق حائل ہے، کہیں بازار حائل ہے
کدھر سے راستہ ڈھونڈیں کدھر جائیں کہاں نکلیں
گلی کوچوں میں ہر جانب صفِ اغیار حائل ہے
میں اک ہی شب میں اپنا قصۂ جاں ختم تو کر لوں
مگر بس کیا کروں، رستے میں تیرا پیار حائل ہے
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment