فریب کھا کے بھی اک منزلِ قرار میں ہیں
وہ اہلِ ہجر کے آسیبِ اعتبار میں ہیں
زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج
نہ جانے کون سے موبر پہ کس مدار میں ہیں
پرانے درد، پرانی محبتوں کے گلاب
جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں
اڑائی تھی جو گروہِ ہوس نہاد نے دھول
تمام منزلیں اب تک اسی غبار میں ہیں
نہ جانے کون سی آنکھیں وہ خواب دیکھیں گی
وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں
چراغ کون سے بجھنے ہیں، کن کو رہنا ہے
یہ فیصلے ابھی اوروں کے اختیار میں ہیں
وہ اہلِ ہجر کے آسیبِ اعتبار میں ہیں
زمین جن کے لیے بوجھ تھی وہ عرش مزاج
نہ جانے کون سے موبر پہ کس مدار میں ہیں
پرانے درد، پرانی محبتوں کے گلاب
جہاں بھی ہیں خس و خاشاک کے حصار میں ہیں
اڑائی تھی جو گروہِ ہوس نہاد نے دھول
تمام منزلیں اب تک اسی غبار میں ہیں
نہ جانے کون سی آنکھیں وہ خواب دیکھیں گی
وہ ایک خواب کہ ہم جس کے انتظار میں ہیں
چراغ کون سے بجھنے ہیں، کن کو رہنا ہے
یہ فیصلے ابھی اوروں کے اختیار میں ہیں
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment