Friday 20 March 2015

بے کلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے

بے کلی میں بھی سدا روپ سلونا چاہے
دل وہ بگڑا ہوا بالک، جو کھلونا چاہے
حسن معصوم ہے پر خواب خزانوں کے بُنے
کبھی ہیرے، کبھی موتی، کبھی سونا چاہے
تجھ سے بچھڑا ہے تو گھائل کی عجب حالت ہے
بیٹھے بیٹھے کبھی ہنسنا، کبھی رونا چاہے
اس بات ناز کو دیکھوں تو میرا ذوقِ نظر
ایک اک نقش میں سو رنگ سمونا چاہے
لاکھ بہلاؤ بھلے وقت کے گلدستوں سے
تلخ ماضی تو سدا خار چبھونا چاہے
کھلی آنکھوں کسی کروٹ، نہ ملے چین اکثر
نیند آئے تو نہ پھر سیج بچھونا چاہے
ایسا بپھرا ہے غمِ زیست کا ساگر اخترؔ
اس کی ہر لہر میری ناؤ ڈبونا چاہے​

اختر ضیائی

No comments:

Post a Comment