ترے گلے میں اگر موتیوں کی مالا ہے
یہ سوچ کس نے مکان اپنا بیچ ڈالا ہے
ہمیشہ جھوٹ ہم آپس میں بولتے آئے
نہ میرے دل میں، نہ تیری زباں پہ چھالا ہے
جو سب نے دیکھ لیا میں بھی اس کو دیکھ سکوں
کتابِ عمر نہ چھپوا سکا میں آج تلک
کہ ہر ورق پہ ترے نام کا حوالہ ہے
پرند اڑنے لگے جانے کیوں درختوں سے
زمیں پہ کیا کوئی بھونچال آنے والا ہے
تری دُکاں پہ تو مہنگی نہیں ہے جنسِ وفا
جلوس شہر میں لوگوں نے کیوں نکالا ہے
نہیں ضرور کہ ہو پیار ایک بار قتیلؔ
یہ میٹھا روگ کئی بار ہم نے پالا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment