Sunday, 22 March 2015

سمندر اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے

سمندر، اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے
کنارے پر بھی ہم کو اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کی جرأتِ پرواز کے چرچے بہت تھے
وہی طائر ہمیں بے بال و پر کیوں لگ رہا ہے
وہ جس کے نام سے روشن تھے مستقبل کے سب خواب
وہی چہرہ، ہمیں نامعتبر کیوں لگ رہا ہے
بہاریں جس کی شاخوں سے گواہی مانگتی تھیں
وہی موسم ہمیں اب بے ثمر کیوں لگ رہا ہے
درو دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں
خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے

افتخار عارف​

No comments:

Post a Comment