Friday 13 March 2015

کوئی پل تو مجھ سے جدا نہیں مجھے علم ہے

کوئی پَل تُو مجھ سے جدا نہیں مجھے علم ہے
کوئی دل میں تیرے سوا نہیں مجھے علم ہے
یہ دلیلِ ترکِ وفا نہیں مجھے علم ہے
مِرا خط ہی اس کو ملا نہیں مجھے علم ہے
چلے اس کا نام بگاڑنے، چلو چپ رہو
کہ وہ شخص اتنا برا نہیں مجھے علم ہے
تجھے پوجنا ہے تو پوج تُو، مجھے چھوڑ دے
وہ بھی آدمی ہے خدا نہیں مجھے علم ہے
مِری جاں تو کتنی حسین ہے تجھے کیا پتا
تِرے ہاتھ پر یہ حنا نہیں مجھے علم ہے
تجھے کیا ہیں مجھ سے شکایتیں مجھے کیا خبر
مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں مجھے علم ہے
نہیں مانتا دلِ تشنہ کام تو کیا کروں
تِری زلف کالی گھٹا نہیں مجھے علم ہے
میں جلوں گا ہجر کی آگ میں یوں ہی عمر بھر
مِری اور کوئی سزا نہیں مجھے علم ہے

افتخار راغب

No comments:

Post a Comment