Friday 27 March 2015

کس قدرصاحب کردارسمجھتے ہیں مجھے

کس قدرصاحبِ کردارسمجھتے ہیں مجھے
مجھ کو تھا زعم، مِرے یار سمجھتے ہیں مجھے
اب تو کچھ اور بھی گہری ہیں مِری بنیادیں
اب تو گھر والے بھی دیوارسمجھتے ہیں مجھے
میں تو بازار میں اترا تھا کہ رونق ہے یہاں
اور یہ لوگ خریدار سمجھتے ہیں مجھے
اے مِرے عشق! تِرے واسطے خوشخبری ہے
اب تو بیمار بھی، بیمار سمجھتے ہیں مجھے
میری کوشش ہے کہ ہو جاؤں کھڑا حق کے ساتھ
اور وہ اپنا طرفدار سمجھتے ہیں مجھے
کچھ تو میری بھی طبیعت میں انا شامل ہے
اور کچھ لوگ بھی خوددار سمجھتے ہیں محھے
خاک سمجھیں گے حقیقت مِرے افسانے کی
یہ جو افسانے کا کردار سمجھتے ہیں مجھے
ان ہی لوگوں نے کبھی حوصلہ توڑا تھا مِرا
اب یہی، قافلہ سالار سمجھتے ہیں مجھے
میں یزیدوں سے چھپا پھرتا یہاں پہنچا ہوں
اور یہ لوگ عزادار سمجھتے ہیں مجھے
ہائے افسوس، عجب عالمِ تنہائی ہے
اب تو گھر والے بھی فنکار سمجھتے ہیں مجھے
کتنا آسان ہُوا کرتا تھا میں پہلے پہل
اب تو سب، جعفریؔ! دشوار سمجھتے ہیں مجھے

لیاقت جعفری 

No comments:

Post a Comment