شام سویرے یاد تمہاری ملنے آتی ہے
تم تو جیسے بھول گئے ہو، یہ تڑپاتی ہے
کون ہے جو ان کرب کے لمحوں میں دَمساز ہے
دل ہی اپنا یار ہے اب تو درد بھی ذاتی ہے
بالے پن کے دھندلے سپنے زندہ رہتے ہیں
ہر چہرے میں ان کا چہرہ، ان کے نقش نگار
محرومی بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے
کب آؤ گے بجھنے کو ہے دو نینوں کی جوت
جیون کے اس دِیپ میں اب تو تیل نہ باتی ہے
تن من جو الفت کی مجبوری میں ہار گیا
سچ کہتے ہو تم لوگو، اخترؔ جذباتی ہے
اختر ضیائی
No comments:
Post a Comment