سفر کا اختتام کر نہیں رہا
ابھی تو میں قیام کر نہیں رہا
بنا رہا ہوں جو ابھی بنا نہیں
جو بن چکا ہے عام کر نہیں رہا
مزاجِ دشت ان دنوں عجیب ہے
کہیں سے بھی تو اٹھ نہیں رہا دھواں
تو کیا یہ شہر شام کر نہیں رہا
ملا نہیں رہا وہ میرے غم میں غم
سکوں مِرا حرام کر نہیں رہا
ہوا سے ہو رہی ہے گفتگو مِری
شجر سے تو کلام کر نہیں رہا
بجھا نہیں رہا چراغ نیم شب
ابھی سخن تمام کر نہیں رہا
عمران عامی
No comments:
Post a Comment