ذکرِ جاناں سے جو شہرِ سخن آراستہ ہے
جس طرف جائیے اک انجمن آراستہ ہے
یوں پھِریں باغ میں بالا قد و قامت والے
تو کہے سرو و سمن سے چمن آراستہ ہے
خوش ہو اے دل! کہ تِرے ذوقِ اسیری کیلئے
کون آج آیا ہے مقتل میں مسیحا کی طرح
تختۂ دار سجا ہے، رَسن آراستہ ہے
شہرِ دل میں تو سدا بھِیڑ لگی رہتی ہے
پر تِرے واسطے اے جانِ من آ، راستہ ہے
ہاں مگر جان سے گزر کر کوئی دیکھے تو سہی
عشق کی بند گلی میں بھی بنا راستہ ہے
اہلِ دل کے بھی مقدر میں کہاں منزلِ دوست
عام لوگوں پہ تو ویسے ہی منع، راستہ ہے
خوش لباسی تِرے عشاق کی قائم ہے ہنوز
دیکھ کیا موجۂ خوں سے کفن آراستہ ہے
ایک پردہ ہے اسیروں کی زبوں حالی پر
یہ جو دیوارِ قفس ظاہراََ آراستہ ہے
حوصلہ چاہیے طوفانِ محبت میں فرازؔ
اس سمندر میں تو بس موجِ فنا راستہ ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment