Sunday 22 March 2015

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب
جس کی ڈھالیں چمک رہیں تھیں وہی نشانہ ہے
کاسۂ شام میں سورج کا سر اور آوازِ اذان
اور آوازِ اذان کہتی ہے فرض نبھانا ہے
سب کہتے ہیں اور کوئی دن یہ ہنگامۂ دہر
دل کہتا ہے ایک مسافر اور بھی آنا ہے
ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر
سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے

افتخار عارف​

No comments:

Post a Comment