وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب
جس کی ڈھالیں چمک رہیں تھیں وہی نشانہ ہے
کاسۂ شام میں سورج کا سر اور آوازِ اذان
اور آوازِ اذان کہتی ہے فرض نبھانا ہے
سب کہتے ہیں اور کوئی دن یہ ہنگامۂ دہر
دل کہتا ہے ایک مسافر اور بھی آنا ہے
ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر
سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑتا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس کو جانا ہے
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب
جس کی ڈھالیں چمک رہیں تھیں وہی نشانہ ہے
کاسۂ شام میں سورج کا سر اور آوازِ اذان
اور آوازِ اذان کہتی ہے فرض نبھانا ہے
سب کہتے ہیں اور کوئی دن یہ ہنگامۂ دہر
دل کہتا ہے ایک مسافر اور بھی آنا ہے
ایک جزیرہ اس کے آگے پیچھے سات سمندر
سات سمندر پار سنا ہے ایک خزانہ ہے
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment