یوں تو مے خانے میں مے کم ہے نہ پانی کم ہے
پھر بھی کچھ کشتئ صہبا میں روانی کم ہے
سچ تو یہ ہے کہ زمانہ جو کہے پھرتا ہے
اس میں کچھ رنگ زیادہ ہے، کہانی کم ہے
آؤ! ہم خود ہی درِ یار سے ہو آتے ہیں
تم بضد ہو، تو چلو ترکِ ملاقات سہی
ویسے اس دل نے مِری بات تو مانی کم ہے
یاد رکھنے کو تو اے دوست! بہت حیلے تھے
اک تِرا زخمِ جدائی تو نشانی کم ہے
دفترِ شوق مرتب ہو تو کیسے ہو فرازؔ
دل نے ہر بار کہا، ایک کہانی کم ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment