Wednesday 25 March 2015

اب اور نہیں ڈرنا

اب اور نہیں ڈرنا

یہ کون ہیں، جن کی دنیا میں دہشت کی حکومت چلتی ہے
اور جن کی قاتل آنکھوں میں بس موت کی وحشت ناچتی ہے
یہ کون ہیں، جن کا دین دھرم
اک جھوٹ پہ قائم جنت کی دوزخ سے گواہی لینا ہے
سورج سے آنکھ چرانا ہے، راتوں سے سیاہی لینا ہے

وہ جسم جو ریزہ ریزہ ہوئے، وہ نام جو بے پہچان ہوئے
سب پوچھتے ہیں، کیوں ان کے گھر، نابود ہوئے، ویران ہوئے
تاریخ مگر یہ کہتی ہے
ہر اہلِ ستم کی قسمت میں، تقدیر نے ذِلت لکھی ہے
ہر ظلم، فنا ہو جاتا ہے
ہر خوف، ہوا ہو جاتا ہے
ہے شرط اگر تو اتنی ہے
جس بھیس میں ظالم آتے ہوں
مظلوم انہیں پہچان سکیں، یہ جان سکیں
”جو ڈرتے ہیں، وہ مرتے ہیں“
جب اہلِ وفا کا عزم و یقیں
انکار کی لے میں ڈھل جائے
ہر چیز بدلتی جاتی ہے
ان اہلِ ستم کے رستوں میں ایک ایک قدم پر جذبوں کی
دیوار سی بنتی جاتی ہے، تقدیر سنورتی جاتی ہے
اے اہلِ نظر! اے اہلِ وفا
اک بات ہمشہ یاد رہے
یہ جتنے شقی ہیں، قاتل ہیں
اندر سے سارے بزدل ہیں
اب ان سے اور نہیں ڈرنا
دہشت کی موت نہیں مرنا
اب ان سے اور نہیں ڈرنا

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment