سوچا تھا اپنے آپ سے شاید سبق ملے
کورے کتابِ عمر کے سارے ورق ملے
ہم پر کوئی نصاب نہ تھا آج تک گراں
اب کے مگر بہت سے مضامین ادق ملے
بے سمت منزلوں کو رواں تھا وہ رہبر
بین السطور جن کی تباہی کا ذکر ہے
یارب اُنہیں بھی حرف شناسی کا حق ملے
اس شخص کی تلاش ہے اب تک مجھے قتیلؔ
ایمان کی ذرا سی بھی جس میں رمق ملے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment