عہد و پیمان بھولتا ہی نہیں
عشق، پہچان بھولتا ہی نہیں
وہ بھی حیران تھا بھلا کے ہمیں
اتنا حیران، بھولتا ہی نہیں
گھاؤ دل کا تو بھر گیا لیکن
یاد تجھ کو کیا نہیں ہے مگر
تُو مِری جان! بھولتا ہی نہیں
اس کو بھولیں تو کس طرح بھولیں
وہ کسی آن بھولتا ہی نہیں
تم تو یزداں کو بھول بیٹھے ہو
ہم سے انسان بھولتا ہی نہیں
سارا عالم گنوا دیا ہے، مگر
دل کا نقصان بھولتا ہی نہیں
بھول جانا تھا کس قدر آسان
اتنا ”آسان“ بھولتا ہی نہیں
آ کے وہ جا چکا کبھی کا بتولؔ
دل کا مہمان بھولتا ہی نہیں
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment