حجرۂ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا
ہم نے میرؔ سے رُوتابی کی بدعت کا آغاز کیا
خوابوں کی پسپائی کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے
دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی، دنیا کو ناراض کیا
جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد
اس گُل کو شادابی بخشی، ہم کو دست دراز کیا
زندہ لفظ کے مدِ مقابل کیا اورنگ و طبل و علم
سارے سحر بکھر جائیں گے جب ہم نے اعجاز کیا
درد کی لَے کا مدھم رکھنا عین ہنر تھا اور ہم نے
باغِ نوا کے خلوتیوں کو خلق کا ہم آواز کیا
ہم نے میرؔ سے رُوتابی کی بدعت کا آغاز کیا
خوابوں کی پسپائی کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے
دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی، دنیا کو ناراض کیا
جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد
اس گُل کو شادابی بخشی، ہم کو دست دراز کیا
زندہ لفظ کے مدِ مقابل کیا اورنگ و طبل و علم
سارے سحر بکھر جائیں گے جب ہم نے اعجاز کیا
درد کی لَے کا مدھم رکھنا عین ہنر تھا اور ہم نے
باغِ نوا کے خلوتیوں کو خلق کا ہم آواز کیا
افتخار عارف
No comments:
Post a Comment