Sunday, 1 March 2015

نئی تراش بھی لاؤ نئے خیال کے ساتھ

نئی تراش بھی لاؤ، نئے خیال کے ساتھ 
سخن تمام نہیں ہو رہا کمال کے ساتھ
شکم کی آگ ہی کچھ ایسی کافرانہ تھی 
حرام کرنا پڑی لقمۂ حلال کے ساتھ
یہ کون راگ میں الجھا دئیے گئے ہم لوگ 
کسی کے سُر نہیں ملتے کسی کی تال کے ساتھ
یہ شہرِ عشق ہے اس میں قدم قدم پہ تجھے 
نئی خوشی بھی ملے گی نئے ملال کے ساتھ
یہ آئینے ابھی معذور بھی ہیں، اندھے بھی 
کسے دکھائی پڑوں گا میں خدوخال کے ساتھ
اِسے بھی وقت سے پہلے بجھا دیا گیا ہے 
یہ آفتاب بھی ڈوبا مِرے زوال کے ساتھ

عمران عامی

No comments:

Post a Comment