Friday 20 March 2015

بے سبب روٹھ گیا چھوڑ کے جانے والا

بے سبب روٹھ گیا چھوڑ کے جانے والا
پھر سے شاید وہ نہیں لوٹ کے آنے والا
وہ جو برسا نہ کھلا، ابرِ گریزاں کی طرح
چشمِ مے گوں سے میری پیاس بجھانے والا
وہ دھنک تھا کہ شفق، پیکرِ خوشبو بن کر
دل کے آنگن میں نئے پھول کھلانے والا
مِٹ گیا حرفِ غلط کی طرح وہ دنیا سے
کیا کوئی اور نہ تھا نقش مِٹانے والا
سب کو کچھ روز ٹھہرنا ہے، گزر جانا ہے
ہے یہاں کون بھلا ٹھور ٹھکانے والا 
جانے کیوں غیر سا لگتا ہے بھری محفل میں
دل میں رہ کر بھی سدا آنکھ چرانے والا
کیا تعجب اسے احساس ہے یکتائی کا
کہ میرا عشق نہیں عام زمانے والا
اب نہ دیکھو گے کبھی چاند سا مکھڑا اخترؔ
خوں رلا کر بھی نگاہوں میں سمانے والا​

اختر ضیائی

No comments:

Post a Comment