بے سبب روٹھ گیا چھوڑ کے جانے والا
پھر سے شاید وہ نہیں لوٹ کے آنے والا
وہ جو برسا نہ کھلا، ابرِ گریزاں کی طرح
چشمِ مے گوں سے میری پیاس بجھانے والا
وہ دھنک تھا کہ شفق، پیکرِ خوشبو بن کر
مِٹ گیا حرفِ غلط کی طرح وہ دنیا سے
کیا کوئی اور نہ تھا نقش مِٹانے والا
سب کو کچھ روز ٹھہرنا ہے، گزر جانا ہے
ہے یہاں کون بھلا ٹھور ٹھکانے والا
جانے کیوں غیر سا لگتا ہے بھری محفل میں
دل میں رہ کر بھی سدا آنکھ چرانے والا
کیا تعجب اسے احساس ہے یکتائی کا
کہ میرا عشق نہیں عام زمانے والا
اب نہ دیکھو گے کبھی چاند سا مکھڑا اخترؔ
خوں رلا کر بھی نگاہوں میں سمانے والا
اختر ضیائی
No comments:
Post a Comment