Sunday, 22 March 2015

میرا شرف کہ تو مجھے جواز افتخار دے

میرا شرف کہ تُو مجھے جوازِ افتخار دے
فقیرِ شہرِ علم ہوں،۔۔ زکوٰۃِ اعتبار دے
میں جیسے تیسے ٹوٹے پھوٹے لفظ گھڑ کے آ گیا
کہ اب یہ تیرا کام ہے، بگاڑ دے، سنوار دے
مِرے امین آنسوؤں کی نذر ہے، قبول کر
مِرے کریم اور کیا تِرا گناہگار دے
نگاہدارئ بہارِ آرزو کے واسطے
ہمارے نخلِ جاں کو بھی کوئی نگاہدار دے
تِرے کرم کی بارشوں سے سارے باغ کھل اٹھیں
ہوائے مہر! نفرتوں کا سارا زہر مار دے
قیامتیں گزر رہیں ہیں کوئی شاہسوار بھیج
وہ شاہسوار جو لہو میں روشنی اتار دے
وہ آفتاب بھیج جس کی تابشیں ابد تلک
میں داد خواہِ اجر ہوں جزائے انتظار دے

افتخار عارف​

No comments:

Post a Comment