سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دِل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حِس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زُود پشیماں، پشیمان سا کیوں ہے
کیا کوئی نئی بات نظر آتی ہے ہم میں
آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے
شہریار خان
No comments:
Post a Comment