مآلِ گل کی خبر کوششِ صبا معلوم
کلی کلی کو ہے گلشن کی انتہا معلوم
ہر اک قدم رہِ الفت میں ڈگمگاتا ہے
یہ ابتدا ہے تو پھر اس کی انتہا معلوم
تجلیات کی اک رو میں بہہ چلا ہے دل
چلے ہیں اس کے طلبگار سُوئے دیر و حرم
جو کوششیں ہیں یہی ہو چکا پتا معلوم
ہر ایک پھول میں دوڑی ہے انبساط کی روح
چمن میں آ کے وہ کیا کہہ گئے خدا معلوم
مری حیات بھی فطرت کا اک معمہ ہے
مرے وجود کو میرا نہیں پتا معلوم
نگاہ ملتے ہی ماہرؔ میں ہوگیا غافل
پھر اس کے بعد کو کیا کچھ ہوا، خدا معلوم
ماہر القادری
No comments:
Post a Comment