Sunday 8 March 2015

ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے

ہم سے اپنے گاؤں کی مٹی کے گھر چھینے گئے
جس طرح شہری پرندوں سے شجر چھینے گئے
تتلیوں نے کاغذی پھولوں پہ ڈیرا کر لیا
راستے میں جگنوؤں کے بال و پر چھینے گئے
اس قدر بڑھنے لگے ہیں گھر سے گھر کے فاصلے
دوستوں سے شام کے پیدل سفر چھینے گئے
کالے سورج کی ضیا سے شہر اندھا ہو گیا
خون میں خوشبو اگانے کے ہُنر چھینے گئے
آنکھ آنکھوں سے زبانوں سے زباں چھینی گئی
داستاں سے داستانوں کے شرر چھینے گئے

افتخار قیصر

No comments:

Post a Comment