Wednesday, 18 March 2015

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں ملا

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں مِلا
ہم کو ثبوتِ تشنہ دہانی نہیں مِلا
اوجھل ہوئے وہ شہر تو پھر مِل نہیں سکے
جیسے ہمارا عہدِ جوانی نہیں مِلا
اتنے بڑے جہاں میں کمی تو نہ تھی کوئی
جاناں تو سینکڑوں تھے وہ جانی نہیں مِلا
دریا کھنگال ڈالے ہیں اس کی تلاش میں
پلکوں سے ریگِ دشت بھی چھانی نہیں مِلا
صبر آ گیا تو سُوکھی ندی بھی اُبل پڑی
جب پیاس تھی تو بُوند بھی پانی نہیں مِلا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment