Wednesday, 18 March 2015

تمہیں خیال ذات ہے شعور ذات ہی نہیں

تمہیں خیالِ ذات ہے شعورِ ذات ہی نہیں
خطا معاف یہ تمہارے بس کی بات ہی نہیں
غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی
ہمارا "مسئلہ" فقط "قلم دوات" ہی نہیں
ہماری ساعتوں کے حصہ دار اور لوگ ہیں
ہمارے سامنے فقط ہماری ذات ہی نہیں
ورق ورق پہ ڈائری میں آنسوؤں کا نم بھی ہے
یہ صرف بارشوں سے بھیگے کاغذات ہی نہیں
کہانیوں کا روپ دے کے ہم جنہیں سنا سکیں
ہماری زندگی میں ایسے واقعات ہی نہیں
کسی کا نام آ گیا تھا یونہی درمیان میں
اب اس کا ذکر کیا کریں جب ایسی بات ہی نہیں

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment