میں ذرا دور ہٹوں پاس بلاتی جائے
موت بھی کیا ہے مرا ساتھ نبھاتی جائے
ایک اک کر کے ہوئے جاتے ہیں پیارے رخصت
ایک اک کر کے سبھی یار اٹھاتی جائے
جانے کیا ہے کہ ہوئی جاتی ہیں آنکھیں بوجھل
اس سے تو لگتا ہے اب اگلی مری باری ہے
جس طرح شام مرا سوگ مناتی جائے
کھل اٹھا چاند کفن میں بھی ترے چہرے کا
چین کی نیند ترا روپ سجاتی جائے
کاٹتی جائے ہواؤں کی طنابیں فرحتؔ
توڑتی جائے سفر دھول اڑاتی جائے
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment